Imtezaaj, Urdu Research Journal, UOK - Karachi

امتزا ج

Department of Urdu, University of Karachi, Pakistan
ISSN (print): 2518-9719
ISSN (online): 2518-976X
References

حواشی:

(۱)   ترقی پسند سیاسی رہنما میاں افتخار الدین کے ادارے پروگریسو پیپرز لیمیٹڈ(پی پی ایل) کے زیرِ اہتمام ایک انگریزی اخبار ’’پاکستان ٹائمز‘‘ اور ایک اُردو اخبار ’’امروز‘‘ شائع ہوتا تھا۔ احمد ندیم قاسمی مارچ ۱۹۵۳ء سے اپریل ۱۹۵۹ء تک اردو اخبار امروز کے ایڈیٹر رہے۔

(۲)   اُردو کا عہد ساز ادبی رسالہ۔احمد ندیم قاسمی نے حکیم حبیب اشعر کے اشتراک سے مئی ۱۹۶۳ء میں لاہور سے فنون کا اجرا کیا۔اس رسالے نے تخلیقی اور تنقیدی ادب کے فروغ میں سرگرم اور فعال کردار ادا کیا۔فنون کے یادگار نمبر اور خاص شمارے حلقۂ علم وادب میں ہمیشہ یاد گار رہیں گے۔

(۳)    فنون کا جدید غزل نمبر دو ضخیم جلدوںمیں جنوری ۱۹۶۹ء میں شائع ہوا۔ جدید اُردو غزل کے ممتاز اور عہد ساز شعرا کے ساتھ ساتھ اس دور کے نئے لکھنے والوں کی غزلوں کا عمدہ انتخاب اور جدید غزل پر تنقیدی مضامین اس میں شامل ہیں۔جدید اُردو غزل کے تحقیقی مطالعے کے لیے یہ نمبر ہمیشہ بنیادی ماخذ کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔

(۴)    فنون کے غزل نمبر میںامین راحت چغتائی کی دس غزلیں شامل ہیں۔ان غزلوں کا ایک ایک مصرع بالترتیب درجِ ذیل ہے:

۱۔ جرسِ مے نے پُکارا ہے ،اُٹھو اور سنو

۲۔ آج وہ پھول بنا، حسنِ دل آرا دیکھا

۳۔ ہو سکے تو دلِ صد چاک دکھایا جائے

۴۔ میں تری دسترس سے بہت دُور تھا

۵۔ مرے بدن سے کبھی آنچ اس طرح آئے

۶۔ زندگی ایک سزا ہو جیسے

۷۔ ہمیں تھے جانِ بہاراں ، ہمیں تھے رنگِ طرب

۸۔ کیا بتائیں ،کہاں کہاں تھے پھول

۹۔ جو میکدے سے بھی دامن بچا بچا کے چلے

۱۰۔ منزلِ شمس وقمر سے گزرے

(۵)   امین راحت چغتائی کا یہ مضمون فنون کے جدید غزل نمبر جلد اوّل میں ’’ اب وہی حرفِ جنوں۔۔۔‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ دیکھیے: فنون (جدید غزل نمبر: جلد اوّل) ؛ ص ۲۳۱ تا ۲۴۶۔

(۶)   احمد ندیم قاسمی نے معروف پنجابی مصرعے: ’’گلیاں ہو جان سُنجیاں وچ مرزا یار پھرے‘‘ سے استفادہ کیا۔

(۷)   امین راحت چغتائی نے احمد ندیم قاسمی کے اس خیال سے اتفاق نہیں کیا اور فیض کا پورا مصرع بہ طور عنوان اختیار نہ کیا۔بعد ازاں ان کے مجموعۂ مضامین ’’دلائل‘‘ میں بھی اسی مختصر عنوان سے شائع ہوا۔

(۸)    معروف شاعر۔ اصل نام عبدالسلام تھا۔بھارت کے شہر ہوشیار پور میں ۲۰؍ اپریل ۱۹۱۸ء کو پیدا ہوئے۔ مختلف اصنافِ شعر میں کلام کہتے تھے۔ان کے کئی شعری مجموعے شائع ہوئے،جن میں علامت،گئی رات کے خواب،سرسوں کے پھول، حرفِ ہنر اور لہو رنگ شام خاص طور پر مشہور ہوئے۔ ان کا انتقال ۱۸؍مارچ ۲۰۰۷ء کو راول پنڈی میں ہوا۔

(۹)   نامور مارکسی نقاد، ادیب اور دانش ور۔ سجاد ظہیر ۱۹۰۵ء میں پیدا ہوئے۔کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بانی اراکین میں شامل ہیں۔۱۹۴۸ء میں فیض احمد فیض کے ساتھ مل کر پاکستان کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی۔راول پنڈی سازش کیس میں پابندِ سلاسل رہے۔۱۱؍ ستمبر ۱۹۷۳ء میں انتقال ہوا۔لندن کی ایک رات، روشنائی، ذکرِ حافظ اور پگھلتا نیلم ان کی کتابیں ہیں۔

(۱۰)    سید سجاد ظہیر کو احمد ندیم قاسمی کی اسلام کے ساتھ وابستگی پسند نہ تھی۔قاسمی نے ۱۹۴۸ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا سیکرٹری بننے سے قبل امروز میں ’’احتجاج واحتیاط‘‘ کے عنوان سے مضمون لکھا تھا ،جس میں ان کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے اور میری نظر میں اسلام اور کمیونزم میں کوئی فرق نہیں۔نومبر ۱۹۴۹ء احمد ندیم قاسمی انجمن کے سیکرٹری چُنے گئے۔ان کے نظریات کے بارے میں سید سجاد ظہیر کو تشویش رہی۔ایک خط بھی احمد ندیم قاسمی کے نام اس سلسلے میں لکھا،جواب میں احمدندیم قاسمی نے ان کی اسلام نافہمی کا برملا ذکر کرتے ہوئے اسلام کے بارے میںاپنے مؤقف کاسختی سے دفاع کیا۔ تفصیل کے لیے امین راحت چغتائی کا مضمون :’’احمد ندیم قاسمی کی نظریاتی شخصیت‘‘ دیکھا جا سکتا ہے جو ان کے تنقیدی مجموعۂ مضامین مراحل[مطبوعہ:۲۰۱۷ء] میں شامل ہے۔

(۱۱)   معروف نقاد اور دانش ور۔ پروفیسرفتح محمد ملک ۱۹۳۶ء کو ٹہی تحصیل تلہ گنگ ضلع اٹک[حال: چکوال] میں پیدا ہوئے۔مختلف پاکستانی اور غیر ملکی اداروں میں تدریسی اور انتظامی خدمات انجام دیں۔ تعصبات، تحسین وتردید،اندازِ نظر، اپنی آگ کی تلاش،اقبال فکر وعمل، احمد ندیم قاسمی شاعر اور افسانہ نگار اور سعادت حسن منٹو :ایک نئی تعبیر ان کی معروف تنقیدی کتابیں ہیں۔پاکستانیات اور اقبالیات پر ان کا کام حوالے کی حیثیت رکھتا ہے۔

(۱۲)   ان دنوں [۱۹۷۲ء تا ۱۹۷۴ء]فتح محمد ملک ادارۂ تحقیق وترقی برائے تعلیم حکومتِ پنجاب میں بہ طور ڈپٹی ڈائریکٹر کام کرتے تھے،۱۹۷۴ء میں محمد حنیف رامے جب پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ ہوئے تو بہ طور پریس سیکرٹری ان کے ساتھ کام کیا۔اس عرصے میں وہ اپنی ملازمتی مصروفیات کے باعث علمی وادبی کام سے کنارہ گیر رہے۔

(۱۳)   معروف نظم نگار ن م راشد مراد ہیں۔ان کی وفات  [۹؍ اکتوبر ۱۹۷۵ء ]پر امین راحت چغتائی نے نظم کہی۔

(۱۴)   احمد ندیم قاسمی کا اشارہ ساقی فاروقی کی طرف ہے۔راشد کی آخری رسوم میں ان کی انگریز بیوی شیلا ، ساقی فاروقی ،عبداللہ حسین اور چند دوسرے لوگ شریک ہوئے۔ساقی فاروقی نے اپنی خود نوشت ’’آپ بیتی؍پاپ بیتی‘‘ میں لکھا ہے کہ شیلا نے جلد بازی سے کام لیتے ہوئے راشد کو نذرِ آتش کرا دیا، اس سلسلے میں اس نے راشد کے بیٹے شہریار سے بھی مشورہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جو ٹریفک کے رش کی وجہ سے آتش کدے تک دیر سے پہنچا۔

(۱۵)   یہ مصرع چغتائی صاحب کی نعتیہ نظم ’’محرابِ توحیدؐ  ‘‘ کا ہے۔انھوں نے احمد ندیم قاسمی کی نشان دہی پر نظم کی لائن یوں کر دی:

ع کبھی قریۂ آلِ عذرۃ کا زائر

اسی نظم کے عنوان پر امین راحت چغتائی نے اپنا مجموعہ مرتب کیا ،جو ۲۰۰۷ء میں بُک سینٹر،راول پنڈی سے شائع ہوا۔یہ نظم بھی اس مجموعے میں شامل ہے۔

(۱۶)    امین راحت چغتائی کی نظموں اور غزلوں کا اولین مجموعہ۔ بھید بھنور مئی ۱۹۸۶ء میں امتزاج پبلی کیشنز،لاہور نے شائع کیا۔ ڈاکٹر سید عبداللہ اور ڈاکٹر وزیر آغا کے مضامین اور ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر جمیل جالبی اور احمد فراز کی آرا بھی مجموعے میں شامل ہیں۔مجموعہ حسنِ طباعت کا عمدہ نمونہ ہے،جا بہ جا مصورِ مشرق عبدالرحمٰن چغتائی کی تصاویر نے مجموعے کی جاذبیت اور دل پذیری میں اضافہ کیا ہے۔

(۱۷)   ممتاز صحافی،شاعر،ادیب اور اداریہ نویس۔۱۹۲۹ء کو امروہہ ضلع مراد آباد میں پیدا ہوئے۔تعلیم کی تکمیل کے بعدصحافت کا پیشہ اختیار کیا۔ کوہستان ،مشرق اور جنگ جیسے روزناموں سے وابستہ رہے۔ مشرق لاہور اور کوئٹہ کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر بھی رہے۔۲۸؍ جنوری ۲۰۰۳ء کو راہیِ ملکِ عدم ہوئے۔

(۱۸)   قاسمی صاحب کا مشورہ مانتے ہوئے چغتائی صاحب نے اس مصرعے کو بدل کر یوں کر دیا:    کبھی اِک بگولا سا بن کر

یہ نظم ’’طور‘‘ بعد ازاں ان کے مجموعۂ نظم ’’ذرا بارش کو تھمنے دو‘‘ میں شامل ہوئی۔

(۱۹)   یہ مضمون بعد ازاں امین راحت چغتائی کے تنقیدی مجموعۂ مضامین ’’ردِ عمل‘‘ میں شامل ہوا۔ ردِ عمل ۲۰۰۶ء میں بُک سینٹر،راول پنڈی کے اہتمام سے شائع ہوا۔

(۲۰)   ۱۹۵۰ء میں حکومتِ مغربی پاکستان نے محکمۂ تعلیم کی نگرانی میں ایک ادارہ مجلسِ ترجمہ قائم کیا،اس کا مقصد مشرق ومغرب کی بلند پایہ علمی کتابوں کے تراجم کرانا اور انھیں شائع کرنا تھا۔بعد ازاں ۱۹۵۴ء میں اسے مجلسِ ترقیِ ادب کا نام دے کر اس کے دائرۂ کار کو بڑھا دیا گیا۔اُردو کے کلاسیکی ادب اور ادبِ عالیہ کی اشاعت و فروغ اس کا بنیادی مقصد قرار پایا۔۱۹۷۵ء میںاسے محکمۂ تعلیم کے بجائے وزارتِ اطلاعات سے وابستہ کر دیا گیا۔امتیاز علی تاج، پروفیسر حمید احمد خاں،احمد ندیم قاسمی،شہزاد احمد، ڈاکٹر تحسین فراقی مختلف ادوار میںاس کے ناظم رہے۔موجودہ ناظم منصور آفاق ہیں۔ ادارے نے اُردو کے کلاسیکی سرمائے کی تدوین و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

(۲۱)   مجلسِ ترقیِ ادب کا ترجمان علمی،تحقیقی اور تنقیدی جریدہ۔صحیفہ کا اجرا ۱۹۵۷ء میںہوا۔اس کے مدیران میں سید عابد علی عابد، ڈاکٹر وحید قریشی،  احمد ندیم قاسمی، شہزاد احمد،رفاقت علی شاہد اور افضل حق قرشی کے نام شامل ہے۔صحیفہ کے کئی خاص نمبرشائع ہوئے،جن میں: غالب نمبر، اقبال نمبر، جنگِ آزادی نمبر، شبلی نمبر، سرسید نمبر، حالی نمبر اور مکتوبات نمبر خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔

___________________________

مآخذ:

چغتائی،امین راحت:مراحل؛ راول پنڈی؛گلریز پبلی کیشنز؛؛۲۰۱۷ء۔

_________:  محرابِ توحید؛ راول پنڈی؛ بُک سینٹر؛ ۲۰۰۷ء۔

_________:ردِ عمل؛ راول پنڈی؛ بُک سینٹر؛۲۰۰۶ء۔

_________: ذرا بارش کو تھمنے دو؛ راول پنڈی؛گلریز پبلی کیشنز؛ ۲۰۱۱ء۔

_________: بھید بھنور؛ لاہور؛ امتزاج پبلی کیشنز؛۱۹۸۶ء۔

ساقی فاروقی:آپ بیتی؍ پاپ بیتی؛کراچی؛ اکادمی بازیافت؛ فروری ۲۰۰۹ء۔

قاسمی،احمد ندیم[مدیر]: فنون(جدیدغزل نمبر،دو جلدیں)؛ لاہور؛ جنوری ۱۹۶۹ء۔

ناشاد،ارشد محمود:مکاتیبِ ہم نفساں؛ اٹک؛ سرمد اکادمی؛ ۲۰۲۰ء

 

٭٭٭

Author(s):

Dr. Arshad Mehmood Nashad,

Associate Professor, Department of Urdu, Allama Iqbal Open University, Islam abad

Pakistan

Details:

Type: Article
Volume: 17
Issue: 17
Language: Urdu
Id: 62bdda3e0d958
Pages 25 - 41
Published June 30, 2022
Creative Commons License
This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.